loader image

MOJ E SUKHAN

فشار حسن سے آغوش تنگ مہکے ہے

فشار حسن سے آغوش تنگ مہکے ہے
صبا کے لمس سے پھولوں کا رنگ مہکے ہے

ادائے نیم نگاہی بھی کیا قیامت ہے
کہ بن کے پھول وہ زخم خدنگ مہکے ہے

یہ وحشتیں بھی مری خوشبوؤں کا حصہ ہیں
کہ مرے خون سے دامان سنگ مہکے ہے

ادائے ناز بھی ہے حسن و اہتزاز کی بات
کہ تار زلف نہیں انگ انگ مہکے ہے

لہو کے پھولوں سے آراستہ ہے تیغ ستم
شفق شفق جو یہ مقتل کا رنگ مہکے ہے

چراغ لالہ سے روشن ہوا ہے دشت وفا
ہوائے دل سے یہ نقش فرنگ مہکے ہے

شکر لبوں کے تبسم کی بات کیا تنویرؔ
نفس نفس میں مئے لالہ رنگ مہکے ہے

تنویر احمد علوی

ایک تبصرہ چھوڑیں