loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 15:35

فضائیں خشک تھیں گھر کی تو باہر کیوں نہیں دیکھا

غزل

فضائیں خشک تھیں گھر کی تو باہر کیوں نہیں دیکھا
دریچوں سے وہ ہنگاموں کا منظر کیوں نہیں دیکھا

زمیں کے خشک لب یہ موسموں کا زہر پیتے ہیں
تو تم نے آسمانوں کا سمندر کیوں نہیں دیکھا

فضاؤں کی کسک سے کچھ تقاضے بھی بدلتے ہیں
ہوس لمحات کو تم نے کچل کر کیوں نہیں دیکھا

سنا یہ ہے سمندر میں جزیرے بھی نمایاں تھے
ہٹا کر بادباں تم نے ٹھہر کر کیوں نہیں دیکھا

جو گھر میں چھوڑ آیا تھا کفن اوڑھے ہوئے رشتے
نہ جانے اس نے بستی کو پلٹ کر کیوں نہیں دیکھا

سنا ہے برف سے بھی انگلیاں لوگوں کی جلتی ہیں
تو تم نے سرد انگاروں کو چھو کر کیوں نہیں دیکھا

جناب رندؔ تم تو پوجتے آئے ہو پتھر کو
جو دروازے پہ چسپاں ہے وہ پتھر کیوں نہیں دیکھا

پی پی سری واستو رند

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم