غزل
قاتل یہاں پہ بھائی کا بھائی ہے دوستو
دنیا یہ کیسے موڑ پہ آئی ہے دوستو
مہر و وفا سے اب ہمیں رغبت نہیں رہی
محفل کدورتوں کی سجائی ہے دوستو
لٹنے پہ گھر ہمارا وہ ایسے ہیں مطمئن
امید ان کی جیسے بر آئی ہے دوستو
رکھوں جو دل میں بات تو گھٹتا ہے میرا دم
کیسے بتاؤں بات پرائی ہے دوستو
داغ جگر چھپا کے نہ رکھوں تو کیا کروں
ان سے یہی نشانی تو پائی ہے دوستو
ہر قسم کی برائی سے بچنا ہے لازمی
چھوٹی ہو یا بڑی ہو برائی ہے دوستو
ہر شعر میں ہے ایک حقیقت چھپی ہوئی
ہاتفؔ نے یہ غزل جو سنائی ہے دوستو
ہاتف عارفی فتح پوری