غزل
لاکھوں دنوں کے بوجھ تلے غم رسیدہ لوگ
اپنی تلاش میں ہیں رواں سر بریدہ لوگ
دھاگے خوشی کے اپنے بدن سے لپیٹ کر
زخموں کی بستیوں میں رہے آب دیدہ لوگ
بحران میرے اسم کو دے کر چلے گئے
جو میرے عہد میں تھے کبھی ناشنیدہ لوگ
پگھلا ہوا ہے ذہن تقاضوں کی دھوپ سے
محفل میں ہنس رہے ہیں مگر شب گزیدہ لوگ
اک عہد کے سفر میں انا بھی شریک تھی
لیکن اسے سمجھ نہ سکے بے عقیدہ لوگ
وہ میرے ہی خیال کے روشن نشان ہیں
لفظوں میں جو بیان ہوئے خط کشیدہ لوگ
میرے لہو کو چھین کے بازار میں بکے
تاجر مرے شعور کے طاہرؔ ندیدہ لوگ
طاہر حنفی