غزل
محشر ہی بپا ہے نہ قیامت کی گھڑی ہے
پھر بھی میں جسے دیکھوں اسے اپنی پڑی ہے
محصورِ انا کا تو نکل آنا ہے مشکل
دیوار پہ دیوار پہ دیوار کھڑی ہے
اوروں کی حفاطت کی وہان بات کرے کون
منصف کو جہان اپنی حفاطت کی پڑی ہے
اس سے مری خوداری کی لپٹی ہین طنابیں
تنہائی کے صحرا مین مری ذات کھڑی ہے
لڑنے کو حوادث سے جو تیار ہوئے ہم
اب گردشِ ایام میں خود اپنی پڑی ہے
اس وجہ کبھی ٹوٹ کے چاہا نہیں تو نے
شاید یہ تری مجھ سے بچھڑنے کی گھڑی ہے
امید پہ قائم ہے زمانے کا بھرم بھی
دل کو بھی تجھے پانے کی امید بڑی ہے
شاعر علی شاعر