غزل
مرے دل سے ترے دل تک سفر ہے
محبت کی کہانی مختصر ہے
کہو گے کیا اسے اے بخیہ گر تم
یہ اک آنسو ہے یا تار نظر ہے
رگیں پیروں کی جیسے منجمد ہیں
تماشائی بنی اک رہ گزر ہے
اداسی مستقل مہماں ہے دل کی
خبر خوشیوں کی اس پر بے اثر ہے
ادھر رنگیں بیانی زور پر ہے
ادھر دنیائے دل زیر و زبر ہے
دعاؔ دکھ کی فراوانی میں سکھ ہے
مجھے راس آتا ہر دکھ تازہ تر ہے
دعا علی