غزل
مصائب زمانے کے کم کیجیے
زمانے کو رشک ارم کیجیے
نہ بے کار بیٹھو کبھی دوستو
کہ دو چار طے اب قدم کیجیے
جو کرتے ہو کعبے میں رب کو تلاش
زمانے کو مثل حرم کیجیے
کسی پر بھی ڈھاؤ نہ ظلم و ستم
ہر اک پہ نگاہ کرم کیجیے
جو دیکھو کسی کو بھی روتا ہوا
تو آنکھوں کو اپنی بھی نم کیجیے
بہت سخت دل کیوں تمہارے ہوئے
ذرا دل کی سختی کو کم کیجیے
کسی کے بھی آگے خدا کے سوا
کبھی اپنے سر کو نہ خم کیجیے
نہیں لگتا دنیا میں ساگرؔ جی دل
چلو چل کے سیر عدم کیجیے
عبد المید ساغر