غزل
معلوم ہمیں خیریت اغیار سے کیوں ہو
ایسے ہی مراسم ہیں تو پھر یار سے کیوں ہو
اب باندھو کمر چھو لو فلک کر کے دکھا دو
ہاتھوں پہ دھرے ہاتھ یہ بے کار سے کیوں ہو
ہے کیسی یہ گفتار ہے یہ کیسی محبت
اقرار بھی کرنا ہے تو انکار سے کیوں ہو
بدلے ہیں اگر دنیا نے کچھ طور طریقے
توتم بھی بدل جاؤ یوں دیوار سے کیوں ہو
اک خوف کی آغوش میں گزرے گی حیاتی
معلوم ہے جب تم کو تو لاچار سے کیوں ہو
آصف سہل مظفر
Asif Sehal Muzaffar