Main zindagi ko dukhoo main guzaar kar khush hoon
غزل
میں زندگی کو دکھوں میں گزار کر خوش ہوں
میں ہجر زادہ محبت کو ہار کر خوش ہوں
میں ریگزارِ محبت میں آ بلوں کے طفیل
جو چاہتا تھا وہ منظر ابھار کر خوش ہوں
بتا رہی ہے یہی کچھ مرے قلم کی چال
میں آستین کے سانپوں کو مار کر خوش ہوں
وہ اپنی جیت پہ خوش ہے مگر یہ کم تو نہیں
میں جیت اپنی محبت پہ وار کر خوش ہوں
لباسِ مفلسی ہو جائے خوشنما کچھ تو
میں اپنے سینے میں خنجر اتار کر خوش ہوں
مرے خلاف رہے عمر بھر یہ ساتوں رنگ
سو آج پانی کا میں روپ دھار کر خوش ہوں
مرے بدن میں یہ تحقیق کر رہا ہے دل
میں کیسے ہجر کی زلفیں سنوار کر خوش ہوں
گزر گئی مرے دل سے قیامتوں کی گھڑی
مگر میں دل سے خدا کو پکار کر خوش ہوں
کرے گی دنیا مرے حق میں فیصلہ اک دن
میں زخم اس لیے دل کے تتار کر خوش ہوں
اے میری موجِ نسیمی خمارِ تشنہ لبی
میں تجھ کو چھلنی بدن سے نتھار کر خوش ہوں
نسیم شیخ
Naseem shaikh