غزل
میں پھول پھول سفر کر رہی تھی خوابوں کا
پھوار لائی تھی تحفہ نئے گلابوں کا
ملے تو قرب کا وہ اعتماد ہی نہ رہا
بھلا تھا اس سے تو موسم وہی حجابوں کا
وہ زخم چن کے مرے خار مجھ میں چھوڑ گیا
کہ اس کو شوق تھا بے انتہا گلابوں کا
وہ جنگلوں سے نکالے ہوئے غریب پرند
جہاں گئے انہیں مسکن ملا عقابوں کا
ہر ایک پوچھتا پھرتا ہے پھر نہ کچھ تعبیر
کہ جیسے شہر میں میلا تھا رات خوابوں کا
میں جو بھی کچھ ہوں یہ سچائی میری اپنی ہے
تمام جھوٹ تھا لکھا ہوا کتابوں کا
عشرت آفرین