نام میرا عاشقی کے باب میں تحریر ہے
آج بھی پیوست مجھ میں عشق کی شمشیر ہے
لٹ گئی کھلیان میں عِصمت کسی مجبور کی
زخم خوردہ گھاس پر لپٹی ہوئی تشہیر ہے
جس قدر ہے بو جھ میرے نا تواں کاندھوں پہ آج
لگ رہا ہے سب مرے اعمال کی تعزیر ہے
غیر کے در پر رہوں گر چھوڑ کر تیری گلی
یہ نصابِ عشق میں سب سے بڑی تقصیر ہے
گھونسلے میں بال و پر ہیں ہر طرف پھیلے ہوئے
شاخ پر بیٹھی ہوئی اک فاختہ دل گیر ہے
ہیں مجھے محبوب دونوں کہہ رہا ہوں آج میں
جان پاکستان ہے تو دل مرا کشمیر ہے
بھاگ سکتا ہوں کہاں عابد بھلا میں دشت سے
جب خیالِ یار میرے پاؤں کی زنجیر ہے
حنیف عابد