غزل
نظریں جھکی سوال پہ میرے جواب میں
کیا کیا نہ کہہ گئی ہے نگاہیں حجاب میں
مضراب ہی سے ساز میں ہے ساری نغمگی
ہے زندگی کا لطف نہاں اضطراب میں
راہ وفا میں اس کے قدم ڈگمگائیں کیوں
دیکھا ہے جس نے تیرا کرم بھی عتاب میں
صدقے نگاہ ناز کے ہوں بے نیاز جام
آئے یہ کیف حسن کہاں سے شراب میں
میں رہ نورد شوق ہوں مجھ کو کہاں یہ ہوش
راحت میں گزرے دل کہ یہ گزرے عذاب میں
رہ رہ کے اب رلاتی ہے پیری میں ان کی یاد
ہنس ہنس کے زخم کھائے جو ہم نے شباب میں
یہ تازگی یہ رنگ بھی آیا کہاں سے ہے
کانٹوں کا خون ہی تو ہے شاید گلاب میں
پورے کہاں ہوئے مرے ارماں گناہ کے
کیا خاک دل لگے گا ابھی سے ثواب میں
بیداریوں کی تاب نہ ہم لا سکے حبیبؔ
گزری حیات ایک مسلسل سے خواب میں
جے کرشن چودھری حبیب