نظر آ رہے ہیں جو تنہا سے ہم
سو یوں ہے کہ بھر پائے دنیا سے ہم
نہ پروا ہمیں حال بے حال کی
نہ شرمندہ عمر گزشتہ سے ہم
بھلا کوئی کرتا ہے مردوں سے بات
کہیں کیا دل بے تمنا سے ہم
نظر میں ہے جب سے سراپا ترا
جبھی سے ہیں کچھ بے سر و پا سے ہم
کوئی جل پری کیا پری بھی نہ آئی
مگر خوش ہوئے رات دریا سے ہم
تماشائی شش جہت ہیں سو ہیں
خود اپنے لیے بھی تماشا سے ہم
سمجھنا تھا دنیا کو یوں بھی محال
سمجھتے تھے دنیا کو دنیا سے ہم
اجمل سراج