نظم
ہجرتوں کے موسم میں
اک خیال اک راستہ
منزلوں کی چاہت میں
خواہش رفاقت میں
ساتھ ساتھ چلتے ہیں
ہجرتوں کے موسم میں
کتنے دشت آتے ہیں
کوئی گھر نہیں آتا
تیرگی میں سناٹا
داستاں سناتا ہے
ان بچھڑنے والوں کی
جو فریب امکاں میں
پھر کبھی نہیں آتے
ہجرتوں کے موسم میں
تشنگی کے دریا میں
موج ریگ ہوتی ہے
اور آب نسیاں کا
شائبہ نہیں ہوتا
ان بچھڑنے والوں سے
رابطہ نہیں ہوتا
ہجرتوں کے موسم میں
روبینہ راجپوت