غزل
نہ منزل سے نہ منزل کا نشاں تک
جنوں لے جائے گا آخر کہاں تک
جہاں ممنوع ہے شغل فغاں تک
وہاں شکوے اگر آئے زباں تک
نہ اٹھواؤ ہمیں محفل سے اپنی
بڑی مشکل سے آئے ہیں یہاں تک
تمہیں محسوس ہوگا ساتھ ہوں میں
مجھے عالم میں ڈھونڈو گے جہاں تک
ہم ان راہوں پہ تنہا چل رہے ہیں
جہاں گم ہو گئے ہیں کارواں تک
قفس ہی میں بہت اچھے تھے بسملؔ
ملا کیا آ کے اجڑے آشیاں تک
بسمل آغائی