Na karna Ishq Samjhaya tha is main jaan Jaati Hay
غزل
نہ کرنا عشق، سمجھایا تھا اِس میں جان جانی ہے
مگر، کم بخت دل نے کب ہماری بات مانی ہے ؟
نہیں ہے دل، کوئی پارا ہے رقصاں جیسے سینے میں
لہو کب ہے ، رواں رگ رگ میں آبِ ارغوانی ہے
یونہی دُھنتے نہیں ہیں سر ، ہمارے شعر وہ سن کر
سخن کے کیمیا میں ، عشق کی معجز بیانی ہے
یہاں اصرار ہے پیہم ، ہو کوئی دید کی صورت
وہاں انکار ہے اُس کا ، وہی پھر لن ترانی ہے
خبر اِن کو ہے ، لازم عشق ہے ، تکمیلِ انساں کو
جنوں میں اور خرد میں کس لیے پھر کھینچا تانی ہے
کہاں کا سہل تھا ، دورِ بلا میں زندگی کرنا
سلامت ہے جو عزت، میرے رب کی مہربانی ہے
ستم ٹوٹے جو کربل میں، فلک نے کس طرح دیکھا
صدائے العطش ، تشنہ لبی ہے ، بہتا پانی ہے
وبالِ دشت میں تھیں سر برہنہ بیبیاں ، دل پر
اُسی رنجِ گذشتہ نے ردائے درد تانی ہے
مظالم تھے کچھ ایسے، اشک رکتے ہی نہیں نسریںؔ
عزا داری ہے، آنکھوں کی سبیلوں میں جو پانی ہے
( نسرین سید )
Nasreen Syed