غزل
وار ایسا ہو کہ بالکل بھی نہ خالی جائے
صلح کی ورنہ کوئی راہ نکالی جائے
حیف ہےان پہ جو بنتے ہیں جدائی کا سبب
ایسے لوگوں کی طرف آگ اچھالی جائے
جب بھی ہونے لگے وحشت تو یہ دل کرتا ہے
چاروں جانب تری تصویر بنا لی جائے
روز کرتی ہے یہ نقصان زمیں زادوں کا
آنکھ آنکھوں سی ہے پر آنکھ چھپا لی جائے
ایک ہی وقت میں دو کام کہاں ہوتے ہیں
گھر بھی چل جائے ، اداسی بھی بچا لی جائے
اسد رضا سحر