غزل
وہ شخص کیا جہاں میں مرا قد گھٹاۓ گا
جو خود گرا ہوا ہے مجھے کیا گراۓ گا
یادوں کا اُسکی جشن جو ایسے منائے گا
خود کوبھی دیکھ لینا کہ تو بھول جاۓ گا
سب لوگ جانتے ہیں کہ ہم عشق والے ہیں
دنیا کو کیا ہماری تو قیمت بتائے گا
اپنا کیا گنائے گا بس ہر گھڑی ہمیں
احسان تو ہمارے مگر بھول جائے گا
آنکھوں کو بند کرنے سے کیسے بنے گی بات
ہو گا وہ دیکھنا جو زمانہ دکھائےگا
احساسِ درد تیرا بڑھے گا تو ایک دن
تو بھی ہمارے شعر بہت گنگنائے گا
چاہت کا نور پھیلے گا ہر سمت دیکھنا
بدلے میں تو چراغ کے جب دل جلا ۓ گا
آندھی میں بھی چراغ اسی نے جلائے ہیں
جسکو جلائے وہ تو کوئی کیا بجھائے گا
جس سے جڑی ہوئی ہیں ہماری روایتیں
اِک روز یہ حویلی بھی وہ بیچ کھائے گا
ہر شخص کرتا رہتا ہے دعویٰ خدائی کا
کس کس کے سامنے بھلا تو سر جھکائے گا
اس طرح سے گیا ہے وہ نصرت کہ اب مجھے
لگتا نہیں ہے لوٹ کے دو بارہ آئیگا
نصرت عتیق گورکھپوری