پتہ چلا کہ تجھے میرا انتظار نہ تھا
میں جانتا ہوں ترا مجھ پہ اختیار نہ تھا
ہوائیں روز ادھر سے ادھر سفر میں رہیں
مسافرت میں شجر کوئی سایہ دار نہ تھا
شگاف بھر نہ سکا آج تک محبت کا
اسی کے زخم کا جس میں کہیں قرار نہ تھا
ہر ایک بات پہ شکوہ یہ مجھ پہ طعنہ زنی
سنو! کہاں مرے لہجے میں اعتبار نہ تھا
لباسِ عشق پہن کر بھلا میں کیا کرتا
مرے حواس پہ اتنا بھی تو سوار نہ تھا
بس ایک ہجر کا موسم بچا تھا میرے لئے
یہاں پہ کوئی بھی موسم سدا بہار نہ تھا
ابھی تو عشق کی تازہ ہوا چلی تھی رضا
کنار دشت پہ کوئی بھی لالازار نہ تھا
حسن رضا