24/02/2025 09:42

پلا کے آنکھوں کو ، کیسی شراب ، گزرا ہے

پلا کے آنکھوں کو ، کیسی شراب ، گزرا ہے
وہ دل رُبا جو ابھی، بے حجاب گزرا ہے

ہوا رکی تھی جو کچھ دیر، احترام تھا وہ
غزال تھا کوئی، وہ جو جناب گزرا ہے

نہیں! نہیں ! یہ محبت ابھی نہیں ممکن
ابھی ابھی تو ، یہ دورِ عتاب گزرا ہے

خدارا! آہی گئے ہو ، تو لوٹ مت جانا
گذشتہ شب کا ہر اک پل عذاب گزرا ہے

ہدف زمیں ہی نہیں، آسماں بھی تھا، لیکن!
بہت ہی تیز یہ عہدِ شباب گزرا ہے

تمام رشتے کہیں کھوگئے تھے لفظوں میں
کتابِ زیست میں، ایسا بھی باب گزرا ہے

کہا تو تھا کہ زمانوں سے ہے چلن یہ ہی
یہ عشق کرکے ہی خانہ خراب گزرا ہے

ہمیں ملا نہیں کاشفؔ، کوئی بھی شخص یہاں
صراطِ عشق سے جو کامیاب گزرا ہے

کاشف علی ہاشمی

مزید شاعری