چراغ آکے جلاؤ بہت اندھیرا ہے
ہمیں تو تیرہ شبی میں سہارا تیرا ہے
جو خواب بھیگے تمارے وصال ساون میں
پڑے ہیں خشک کہ اب ہجر میں بسیرا ہے
کمال حسن تکلم سے جان تک لوٹے
ہنر میں طاق ہے فنکار وہ لٹیرا ہے
گزر ہی جائے گی یوں شب بھی ہجر زادوں کی
ذرا سا سانس پڑاو ہے پھر سویرا ہے—
کھلا یہ بھید زمانے کی ریت سے شاہیں
کہ کل کسی کا وہ ہو گا جو آج میرا ہے
شاہین برلاس