چشمِ طلب خمار سے آگے نکل گئی
یعنی مرے حصار سے آگے نکل گئی
جو حال ہے مرا مری آنکھوں میں دیکھ لو
اب بے کلی قرار سے آگے نکل گئی
احساس وقت کا بھی کسی کو نہیں رہا
تقریر اختصار سے آگے نکل گئی
اب ھاتھ مل رہے ہو سرِ راہ کس لیے
پاگل ہوا غبار سے آگے نکل گئی
دیکھو دکھائی دی ہمیں زم زم کے روپ میں
جو تشنگی سوار سے آگے نکل گئی
پہلے تمام دن بھی تو بے دسترس رہا
اب شام اختیار سے آگے نکل گئی
یہ رات ساتھ تھی مرے زنجیر کی طرح
پھر کربِ انتظار سے آگے نکل گئی
اب لوٹتا محال ہے ثاقبؔ خلاوں سے
یہ زندگی مدار سے آگے نکل گئی
سہیل ثاقبؔ