چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
شکلیں بدل بدل کر ڈرانے لگے مجھے
شوقِ جمال طور پہ بیٹھا رہا مرا
کیونکر تماش بین اٹھانے لگے مجھے
شیشے کے ٹوٹنے کی صدا تو نہیں سنی
ٹوٹا جو دل مرا تو ہنسانے لگے مجھے
آنکھوں کو آنسوؤں کی ضرورت نہیں رہی
ان کے وصال و ہجر بہانے لگے مجھے
تحریر میں سمو نہ سکے گا وہ گل بدن
سوچوں کے زاویوں سے بنانے لگے مجھے
لوگوں کو روشنی کی ضرورت جہاں پڑی
مثل ِ چراغِ طاق جلانے لگے مجھے
خلقت کے راستوں کی رکاوٹ نہیں ہوں گل
سنگ کی طرح سے کیوں یہ ہٹانے لگے مجھے
گل نسرین