Kabhi loot kar no aana
نظم
شبِ غم تھی بیقراری
تری یاد کی سواری
مجھے اپنے ساتھ لے کر
مرا ہاتھ ، ہاتھ لے کر
مجھے لے گئی وہاں پر
ملے تھے کبھی جہاں پر
وہی نیم کا شجر تھا
وہاں کوئی نا مگر تھا
وہی چھوٹی سی کیاری
جو اُجڑ گئی تھی ساری
وہی ٹوٹی ایک کُرسی
مجھے دیکھ کر وہ رو دی
میں بِکھر بِکھر کے بِکھرا
میرا درد اور نکھرا
تبھی نیم نے پُکارا
کہا سُن او میرے یارا
یہاں آنسو مت بہانا
کوئی شور مت مچانا
تری الوہی محبت
یہاں سو رہی ہے اب تک
تو یہاں کبھی نہ آنا
نہ کسی کو یہ بتانا
ترے ساتھ جو بھی بیتا
وہ نصیب میں لکھا تھا
ترا راز ، راز رکھنا
یونہی دل گداز رکھنا
کبھی لوٹ کر نہ آنا
کبھی لوٹ کر نہ آنا
خالد میر
Khalid mir