loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 15:37

کتنے خیال رات کی پلکوں میں آئے تھے

غزل

کتنے خیال رات کی پلکوں میں آئے تھے
کرنوں نے سب چراغ سویرے بجھائے تھے

چلنا پڑا ہوا کو بھی دامن سنبھال کر
پھولوں کے ساتھ راہ میں کانٹے بچھائے تھے

پانی بچا کے رکھ لیا ویرانیوں کے بیچ
کس نے ہزاروں کوس سے پنچھی بلائے تھے

سرسبز وہ ہی پیڑ ہوا موڑ کی طرح
جس نے ہوا میں پنکھ سے پتے اڑائے تھے

رسم و رواج کی امر بیلوں نے ڈس لیا
ہم نے ازل سے خود ہی یہ بندھن بنائے تھے

تارے گئے کہاں یہ وہیں کے وہیں رہے
دن سے چھپائے جو وہی شب نے دکھائے تھے

بدلے لباس آدمی ہر رت کے رنگ میں
پتھر کے یگ میں آج کے کپڑے سلائے تھے

باہر فقیر نے کہیں ڈیرا لگا لیا
بازار سارے شہر کے ہم نے سجائے تھے

الفاظ کا ہجوم تھا پہچانتے کسے
کتنے ہی بن بلائے کتابوں میں آئے تھے

دیپک قمر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم