غزل
کرتا نہیں کسی سے کبھی بات آگ پر
جس شخص نے گزاری ہر اِک رات آگ پر
عشّاق کے نصیب میں جلنا ہے کِس لیے
لکھی ہیں کِس نے ہجر کی آیات آگ پر
اُس کربِ انتظار کا عالم نہ پوچھیے
جس میں گزرتے ہیں سبھی لمحات آگ پر
اُس کے بدن کو چُھو کے کچھ ایسا لگا مجھے
جیسے کہ پڑ گیا ہو مِرا ہاتھ آگ پر
دو چار دن کی بات ہو تو صبر بھی کروں
کیسے گزاروں عمر کی ہر رات آگ پر
تم کو محبتوں کا یقیں کیسے آئے گا
انگارے رکھ لوں ہاتھ پہ، یا ہاتھ آگ پر
رونے سے دل کی آگ بھڑکتی ہے اور بھی
شاعرؔ نے کر کے دیکھ لی برسات آگ پر
شاعر علی شاعرؔ