کچھ اکیلی نہیں مری قسمت
غم کو بھی ساتھ لگا لائی ہے
منتظر دیر سے تھے تم میرے
اب جو تشریف صبا لائی ہے
نگہت زلف غبار ِرہِ دوست
آخر اس کوچہ سے کیا لائی ہے
موت بھی روٹھ گئی تھی مجھ سے
یہ شب ہجر منا لائی ہے
مجھ کو لے جا کے مری آنکھ وہاں
اک تماشا سا دکھا لائی ہے
آہ کو سوئے اثر بھیجا تھا
واں سے کیا جانیے کیا لائی ہے
شبلیٔ زار سے کہہ دے کوئی
مژدۂ وصل صبا لائی ہے
شبلی نعمانی