کچھ نہ کچھ تو چھپا رہے ہو تم
یہ جو آنکھیں چرا رہے ہو تم
جیسے مجھ کو خرید لائے ہو
حق تو ایسے جتا رہے ہو تم
مجھ کو اپنا بنا رہے ہو یا
صرف باتیں بنا رہے ہو تم
عام سی بات ہے بچھڑ جانا
کیوں قیامت اُٹھا رہے ہو تم
سب کی باتیں ادہر اُدہر کر کے
خود کو کتنا گرا رہے ہو تم
جتنا تم کو بھلا رہی ہوں میں
اتنا ہی یاد آ رہے ہو تم
بند تو کردو دل کا دروازہ !
آرہے ہو کہ جا رہے ہو تم !
میں ہوں مصروف گھر کے کاموں میں
فون کر کے ستا رہے ہو تم
میٓر کو پڑہنا چاہتی ہے ثبین
اور غالبٓ پڑہا رہے ہو تم
ثبین سیف