غزل
کہاں سر پیٹنے کا وقت اب بیداد قاتل پر
کلیجے پر مرا اک ہاتھ ہے اک ہاتھ ہے دل پر
اسیری کو مری سب قید ہی سمجھیں مگر میں تو
جو پیار آتا ہے بوسے دینے لگتا ہوں سلاسل پر
یہ نالے نکلے جس دل سے نہ جانے اس پہ کیا گزری
کہ جس کے کان تک پہونچے چھری سی چل گئی دل پر
نہیں اب آہ ساحل دیکھنا بھی اپنی قسمت میں
نظر آئی ہیں موجیں جب نظر ڈالی ہے ساحل پر
تبسم نے ابھی ان رنگ اڑے ہونٹوں کو چوما ہے
کھنچی تصویر کس کی پردہ ہائے چشم قاتل پر
یہ ہیں کیسی بلائیں اس سے ہو سکتا ہے اندازہ
کہ چیخ اٹھے ہیں وہ بھی جان جو دیتے تھے مشکل پر
تماشا آخری ہے اب نہیں موقع تغافل کا
کہ رنگت لوٹتی پھرتی ہے قاتل روئے بسمل پر
ہماری زندگی اک نام تھا تیمار داری کا
کبھی اٹھا نہ بیخودؔ جب سے رکھا ہاتھ کو دل پر
بیخود موہانی