کہیں چراغ بجھانا پڑا کہ میں بھی ہوں
کہیں پہ خود کو جلانا پڑا کہ میں بھی ہوں
مرے گلے میں جو ڈالا مرے حریفوں نے
مجھے وه ڈھول بجانا پڑا کہ میں بھی ہوں
تری عطا وه تجسس ہے جس کے بڑهنے پر
تجھے بھی طور پہ آنا پڑا کہ میں بھی ہوں
وه بار بار مجھے بھولتا تھا اور مجھے
یہ بار بار بتانا پڑا کہ میں بھی ہوں
سنا تھا آئیں گے محفل میں دل دریده لوگ۔
مجھے بھی زخم دکھانا پڑا کہ میں بھی ہوں
وہاں بھی خود کو دکھایا جہاں میں تھا ہی نہیں
کہیں یہ سچ بھی چھپانا پڑا کہ میں بھی ہوں
میں مانتا ہوں کہ خاموش ہے مگر وہ ہے
مجھے تو شور مچانا پڑا کہ میں بھی ہوں
ہوا نہیں تو بھی ثابت کرونگا ہونے کو
اگر یقین دلانا پڑا کہ میں بھی ہوں
حسن ہے اتنا ضروری وجود کا اظہار
ہوا کو پیڑ ہلانا پڑا کہ میں بھی ہوں
احتشام حسن