loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

17/06/2025 15:37

کیا تا بہ زباں آئے دل زار کی آواز

غزل

کیا تا بہ زباں آئے دل زار کی آواز
بیمار کے مانند ہے بیمار کی آواز

موسیٰ کی پسند آئی ہے تکرار کی آواز
مطلوب ہوئی طالب دیدار کی آواز

دونی نہ ہو کیوں آمد دل دار کی آواز
خلخال کی آواز ہے رفتار کی آواز

کہتے ہیں وہ سن سن کے دل زار کی آواز
آتی ہے یہ شاید مرے بیمار کی آواز

اتنا گل گلشن کے لئے شور مچایا
پڑ پڑ گئی مرغان گرفتار کی آواز

اب حال یہ ہے ضعف و نقاہت سے مسیحا
آتی نہیں لب تک ترے بیمار کی آواز

سرمے کا اثر بخت سیہ رکھتا ہے اس کا
ہو بند نہ کیوں مرغ گرفتار کی آواز

جب ابروئے خم دار کا ہوتا ہے تصور
آتی ہے مرے کان میں تلوار کی آواز

صیاد قفس کو تو ذرا دیکھ لے جاکر
آتی نہیں کیوں بلبل گل زار کی آواز

کیا جانے ہوا کیا دل بے حال کو میرے
آتی نہیں مجھ تک مرے بیمار کی آواز

ہے شور یم اشک کا جس طرح جہاں میں
اس طرح نہیں قلزم و ذخار کی آواز

افلاس نے گھیرا ہے فقیروں کو یہ تیرے
کانوں میں بھی آتی نہیں دینار کی آواز

کشتہ کیا اک بار صدا مجھ کو سنا کے
قاتل ہے مرے ظالم خونخوار کی آواز

لہراتی ہوئی آپ یہ آتی ہے لبوں تک
کیا مست ہے ساقی ترے مے خوار کی آواز

عشاق کا سن سن کے جگر ہوتا ہے ٹکڑے
تلوار ہے خود بھی تری تلوار کی آواز

کرتا میں صدا زیر محل مثل گدا کیا
سنتا نہیں کوئی پس دیوار کی آواز

بے ساختہ آنکھوں سے نکل آتے ہیں آنسو
سنتے ہیں اگر عاشق بیمار کی آواز

دل توڑ دیا ناوک مژگاں نے ہمارا
تا گوش نہ آئے لب سوفار کی آواز

دس بیس جگہ بیٹھ کے آتی ہے لبوں تک
بیمار ہے عیسیٰ ترے بیمار کی آواز

آنکھوں کو دکھا قبر میں یا رب رخ انور
کانوں کو سنا حیدر کرار کی آواز

ہل جاتا ہے نالوں سے دل زار ہمارا
سنتا ہوں جو فاخرؔ کسی بیمار کی آواز

فاخر لکھنوئی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم