غزل
کیا قیامت ہے بتوں کی بزم میں جانے کا حظ
ہم کو خدمت کا انہوں کو کام فرمانے کا حظ
وصل میں بھی درد مندوں کو نہیں راحت نصیب
دیکھ لیجے شمع کے ملنے سے پروانے کا حظ
اس طرف گل ٹوٹتا ہے اس طرف بلبل کا دل
کیا رہا گلچیں کے ہاتھوں باغ میں جانے کا حظ
جی نکلتا ہے مرا اس پر کہ کب آئے گا ہاتھ
یار کے پاؤں پہ سر کو رکھ کے مر جانے کا حظ
بوجھتا ہے خوب کیفیت نظارے کی یقیںؔ
اس نگاہ مست سے لیتا ہے میخانے کا حظ
انعام اللہ خاں یقیں