غزل
کیا لطف زندگی کا جو نادانیاں نہ ہوں
سینے میں دل ہو اور پریشانیاں نہ ہوں
ترک تعلقات تو کرتے ہو دیکھنا
تم کو خدا نہ کردہ پشیمانیاں نہ ہوں
یہ ساری اضطراب مسلسل کی بات ہے
دل کو سکون ہو تو غزل خوانیاں نہ ہوں
زخم جگر کو اپنے چھپاتا رہا ہوں میں
اس خوف سے کہ ان کو پشیمانیاں نہ ہوں
وہ دن گزر گئے کہ محبت گناہ تھی
اب تو مشاہدات کو حیرانیاں نہ ہوں
اس دل پہ سوز و ساز محبت حرام ہے
جس میں نشاط غم کی فراوانیاں نہ ہوں
اے شوقؔ برق و باد کا اس میں قصور کیا
قسمت بری نہ ہو تو پریشانیاں نہ ہوں
شوق ماہری