گھر بھی آباد ہوا دشت کی تیاری کی
کچھ پرندوں نے مرے گھر میں شجر کاری کی
بس یہی جرم مجھے دار پہ لے آیا ہے
جبر کے دور میں بھی میں نے قلمکاری کی
کیا خبر تھی کہ مجھے سچ میں محبت ہوگی
میں نے تو یونہی محبت کی اداکاری کی
رات سہمی ہوئی چڑیا کی طرح لگتی ہے
چاند گہنا گیا جب میں نے عزاداری کی
اپنی آواز پہ لبیک کہا کرتا تھا
بے صدا شہر میں یوں میں نے صداکاری کی
اے مجھے عشق کا بیمار سمجھنے والے
اور صورت بھی تو ہوسکتی ہے بیماری کی
تو مرے پاس جو ہوتا تو غلامی کرتا
تیری تصویر سے بھی میں نے وفاداری کی
تو مجھے دکھ بھی اگر دے تو سکوں ملتا ہے
دل تو ٹوٹا ہے مگر بات ہے سرشاری کی
محمد مظہر نیازی