Haayee andeesha yeh Ruswaai Ka
غزل
ہائے اندیشہ یہ رسوائی کا
چھوڑے پیچھا کہاں سودائی کا
چاند جیسے ہے اکیلا اوپر
حال ایسا مری تنہائی کا
چین کی بنسی بجانے والو
درد سمجھو کبھی شہنائی کا
ہائے دشمن ہے تخیل میرا
راز کھولے مرے شیدائی کا
دیکھ آواز پلٹ آئی ہے
کوئی اندازہ ہے گہرائی کا
خیر ہو جشنِ طرب کی مولا
ہے تماشا مری پسپائی کا
خوں رلائے مجھے وہ سادہ پن
گمشدہ نسخہ جو دانائی کا
مرگِ نفرت تھی تمنا جس کی
حشر کیا ہے اسی سودائی کا
ایک تصویر نظر میں فہمی
کوئی درماں مری بینائی کا
فریدہ عالم فہمی
Farida Alam Fehmi