ہر ارادہ سینۂ شمشیر میں ڈوبا ہوا
حال ہے کس نشۂ تسخیر میں ڈوبا ہوا
آنکھ تو اب تک طلسم خال و خد کی ہے اسیر
دل نکلتا ہی نہیں تصویر میں ڈوبا ہوا
حرف تو سارے کے سارے بے صدا مجھ کو لگے
خط اگرچہ تھا بہت تحریر میں ڈوبا ہوا
بام در کے ٹوٹنے میں ہی کہیں موجود ہے
ایک امکاں خواہش تعمیر میں ڈوبا ہوا
وہ اچانک سامنے آیا تو مجھ کو یوں لگا
خواب تھا جیسے کوئی تعبیر میں ڈوبا ہوا
کھینچ لائیں گے اسے جاویدؔ احمد ایک دن
عدل ہے کس حلقۂ زنجیر میں ڈوبا ہوا
جاوید احمد