غزل
ہر سمت قتل گاہ کا منظر ہے آج بھی
پوشیدہ آستینوں میں خنجر ہے آج بھی
ہے امن اور عدل کا شہرا بہت مگر
سرگرم کار دست ستمگر ہے آج بھی
جو مدتوں سے لوٹتا آیا ہے دوستو
افسوس قوم کا وہی رہبر ہے آج بھی
تم سے جدا ہوئے تو زمانہ ہوا مگر
سایہ تمہاری زلفوں کا سر پر ہے آج بھی
تو مہرباں تھا مجھ پہ کبھی یاد ہے مجھے
کیا تو وہی خلوص کا پیکر ہے آج بھی
تعمیر نو کے دور میں اہل مکاں ہیں سب
دانشؔ ہے ایک شخص جو بے گھر ہے آج بھی
دانش فراہی