Her Ghari qayamat thee yeh na poch kab guzri
غزل
ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری
بس یہی غنیمت ہے تیرے بعد شب گزری
کنج غم میں اک گل بھی لکھ نہیں سکا پورا
اس بلا کی تیزی سے صرصر طرب گزری
تیرے غم کی خوشبو سے جسم و جاں مہک اٹھے
سانس کی ہوا جب بھی چھو کے میرے لب گزری
ایک ساتھ رہ کر بھی دور ہی رہے ہم تم
دھوپ اور چھاؤں کی دوستی عجب گزری
جانے کیا ہوا ہم کو اب کے فصل گل میں بھی
برگ دل نہیں لرزا تیری یاد جب گزری
بے قرار بے کل ہے جاں سکوں کے صحرا میں
آج تک نہ دیکھی تھی یہ گھڑی جو اب گزری
بعد ترک الفت بھی یوں تو ہم جئے لیکن
وقت بے طرح بیتا عمر بے سبب گزری
کس طرح تراشو گے تہمت ہوس ہم پر
زندگی ہماری تو ساری بے طلب گزری
ظہور نظر
Zahoor Nazar