غزل
ہمیں ہیں مشق ستم ہائے آسماں کے لئے
چنے گئے ہیں ہمیں یاس جاوداں کے لئے
قسم خدا کی نہیں شوق زندگی ہم کو
ہمیں یہ چاہئے اس حسن جاں ستاں کے لئے
اضافہ اور غم جاں ستاں میں ہوتا ہے
اثر بنا ہی نہیں ہے مری فغاں کے لئے
خبر نہیں مرا تنکوں کا ایک جا کرنا
ہے بجلیوں کے لئے یا کہ آشیاں کے لئے
کسی کی تیغ گلے پر چلے تو کیا اس سے
کہاں نشاط شہادت ہے سخت جاں کے لئے
ہزاروں ظلم وہ کرتا ہے اس بہانے سے
ادا تمہاری کھلونا ہے آسماں کے لئے
وہ جو ہے سارے زمانے کا جز ترے بیدلؔ
تڑپ یہ ہے اسی بیگانہ مہرباں کے لئے
بیدل عظیم آبادی