غزل
ہم آشنائے غم رہے فراق سے وصال تک
دل و نظر بہم رہے فراق سے وصال تک
ہم اور درد عشق کی لطافتوں سے آشنا
شریک چشم نم رہے فراق سے وصال تک
ہماری زندگی رہی مثال موجۂ صبا
ہم اتنے محترم رہے فراق سے وصال تک
قیود اجتناب میں حدود احتساب میں
نہ تم رہے نہ ہم رہے فراق سے وصال تک
جہان عشق کی فضا ہوا چراغ آئنہ
ہمارے ہم قدم رہے فراق سے وصال تک
سفر ہماری ذات کا رہین جستجو رہا
ہم اپنے گھر میں کم رہے فراق سے وصال تک
ہوائے شہر آرزو حریف عشق تھی مگر
چراغ تازہ دم رہے فراق سے وصال تک
اختر سعیدی