غزل
ہم اپنے آپ کو ایسے گنوانے لگتے ہیں
بہت خوشی ہو تو ماتم منانے لگتے ہیں
اکیلا پن ہے اور ایسا اکیلا پن جس میں
کوئی جو پوچھ لے کچھ سب بتانے لگتے ہیں
سمجھ میں آتا نہیں جب کوئی سوال ہمیں
بہانے باز ہیں ہم گنگنانے لگتے ہیں
وہ بات دیکھتے ہیں دل نہیں سمجھتے ہیں
میں جاؤ کہتا ہوں تو لوگ جانے لگتے ہیں
بس ایک بار ہمیں وہ پکار لیتا ہے
بدن کی قید میں ہم چھٹپٹانے لگتے ہیں
کسی کسی پہ ہی اب اعتبار ہوتا ہے
کسی کسی کے ہی ہم لوگ شانے لگتے ہیں
یہ چند دوست بلانے پہ بھی نہیں آتے
میں جب بلاتا نہیں ہوں تو آنے لگتے ہیں
ادھر سے آئے تو تجھ تک ہم آ گئے جلدی
ادھر سے آنے میں ورنہ زمانے لگتے ہیں
ہماری رات کا اک وقت طے ہے جس میں ہم
تمام بچھڑے ہوؤں کو بلانے لگتے ہیں
قمر عباس قمر