غزل
ہم قدم نہیں کوئی ، ہم زباں نہیں کوئی
میں اور میری تنہائی ، درمیاں نہیں کوئی
عجب سفر ہے نور کا ، ذات کی تلاش میں
کیوں کہوں کہ راہوں میں کہکشاں نہیں کوئی
روز شب نہیں رکتے ، کشکول میں زمانے کے
وقت کے فرعون کا ، نام و نشاں نہیں کوئی
کب کے کرچکے ہجرت ، طائران گلشن بھی
راج خشک پتوں کا ، نغمہ خواں نہیں کوئی
جنس کوئی بھی نہیں ، دو جہاں میں بے مقصد
چرغ سے زمین تک یاں ، رائیگاں نہیں کوئی
خواہشیں سبھی دل کی ، مفلسی کی بھٹی میں
جل کے راکھ ہوگئیں ، اور دھواں نہیں کوئی
تذکرے فقط تیرے ، آتی جاتی سانسوں تک
بعد از فنا اے صوفیہ ، تیرا بیاں نہیں کوئی
صوفیہ حامد خان