یقیں جو بد گمانی سے بدل جائے مجھے کہنا
اگر یہ آگ پانی سے بدل جائے مجھے کہنا
محبت کا حسیں نغمہ، کسی لمحے کسی بھی پل
سکوتِ زندگانی سے بدل جائے مجھے کہنا
تمھی اول تمھی آخر تمارا مثل نہ کوئی
یہ اول جب بھی ثانی سے بدل جائے مجھے کہنا
عبادت بے ریا ہو کر ہی کرنا شرطِ اول ہے
کلیمی کب شبانی سے بدل جائے مجھے کہنا
جو ہم نے مل کے دیکھے ہیں انھی خوابوں کے پردے پر
کوئی منظر کہانی سے بدل جائے مجھے کہنا
انا کے براعظم میں محبت بیج کر دیکھو
اگر نہ برف پانی سے بدل جائے مجھے کہنا
یہ ہستی نامرادی میں جو غم ہے شازیہ اکبر
حیات- جاودانی میں بدل جاے مجھے کہنا.
انا کے برِاعظم میں محبت بو کے تم دیکھو
نہ جو یہ برف پانی سے بدل جاے مجھے کہنا
شازیہ اکبر