غزل
یوں تو مرا اس سے کوئی پردہ بھی نہیں ہے
لیکن کبھی میں نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے
انسان ہے وہ کوئی فرشتہ بھی نہیں ہے
اس سا کوئی دنیا میں نرالا بھی نہیں ہے
دنیا میں کسی کو کبھی کمتر نہیں سمجھا
میں کون ہوں کیا ہوں کبھی سوچا بھی نہیں ہے
کیا جانیے کیوں لوگ گزر جاتے ہیں کٹ کر
میرا تو کسی سے کوئی رشتہ بھی نہیں ہے
دشمن سے فزوں تر ہے نگہبان کی قوت
شاید مرے دشمن نے یہ سوچا بھی نہیں ہے
کیوں میری صدا سن کے زمانہ ہے غضب میں
ایسا کوئی اونچا مرا لہجہ بھی نہیں ہے
کیوں میرے لیے دار سجایا گیا تابشؔ
میں نے تو کسی کو کبھی ٹوکا بھی نہیں ہے
تابش مہدی