یہاں جو قد سے اونچا لگ رہا ہے
تماشہ بھی اُسی کا لگ رہا ہے
مُجھے کیا چہرے پڑھنے آ گئے ہیں
جو سارا شہر جھوٹا لگ رہا ہے
زرا پہچان لوں تو لکھ بھی دوں گی
کہاں تک کون سچا لگ رہا ہے
بھلے یہ آئینہ مجھ پر ہی ہنس دے
مجھے ہر عکس ٹوٹا لگ رہا ہے
چلے گی آج کوئی تیز آندھی
ابھی بادل بھی گہرا لگ رہا ہے
ہری ڈالی سے ٹوٹا اب یہ پتا
کئی پیروں میں گرتا لگ رہا ہے
یہ عاشق دشت میں پھرتے رہیں گے
یہاں صحرا جو ٹھہرا لگ رہا ہے
حسد سے جل رہا ہے میرا سینہ
برابر کیوں یہ سایا لگ رہا ہے ؟
دکھاوے کی محبت ہر جگہ ہے
یہ کیوں پھر زہر میٹھا لگ رہا ہے ؟
یہاں انسان مل جائیں عنیمت
یہ آدم تو فرشتہ لگ رہا ہے
بدلتے جا رہے ہیں سب ہی چہرے
یہ شہرت کا تماشا لگ رہا ہے
یہاں خاموش ہیں جتنے منافق
انہی کا بول بالا لگ رہا ہے
ردا کچھ لوگ ایسے ہیں جہاں میں
کہ اب تک کچھ اجالا لگ رہا ہے
ردا فاطمہ