Yeh zindagi abh gham say bahal kyu nahi jaati
غزل
یہ زندگی اب غم سے بَہل کیوں نہیں جاتی ؟
حسرت بھی مرے دل سے نکل کیوں نہیں جاتی ؟
پوری ہی نہیں ہوتی اگر ایک بھی امید
پھر دل سے ہر امید نکل کیوں نہیں جاتی ؟
بَھڑکا ہوا شعلہ سا ہے ہر وقت بدن میں
اس آگ میں یہ جان بھی جل کیوں نہیں جاتی ؟
محنت بھی مشقّت بھی سبھی کرتے ہیں لیکن
ہر شخص کی تقدیر بدل کیوں نہیں جاتی ؟
ہے دفن دلوں میں جو جہاں بھر کی مصیبت
اشکوں کے توسط سے نکل کیوں نہیں جاتی ؟
میں نے بھی سُنا ہے کہ قمرؔ آئینگے شب میں
پھر دھوپ بھی یہ قبل ہی ڈھل کیوں نہیں جاتی ؟
نقمرِ عالم قمرؔ qamer alam qamer