آؤ صحرا میں سمندر ہے دکھا دوں تم کو
ہاں میری آنکھ کے اندر ہے دکھا دوں تم کو
جن کے ہر درد پہ روئے جنہیں اپنا سمجھا
ان کے ہاتھوں میں بھی پتھر ہے دکھا دوں تم کو
چند لوگوں کی ہتھیلی پہ لکیریں ہی نہیں
ان کے بھی ساتھ مقدّر ہے دکھا دوں تم کو
جس کے ہر شعر پہ ہے داد کا تحسین کا شور
پھر بھی گمنام سخنور ہے دکھا دوں تم کو
جو سیاست کا گرو ہے بڑا لیڈر بھی وہی
وہ بھی قاتل ہے ستمگر ہے دکھا دوں تم کو
مست رہتا ہے وہ جس حال میں ہو شکر کرے
بس وہی مردِ قلندر ہے دکھا دوں تم کو
سب کی سنتا ہے مگر بولتا کم ہے کاوش
ہاں وہی شخص جو بہتر ہے دکھا دوں تم کو
کاوش کاظمی