Aeena Kirdaar Ka jis nay bhi meela Kar lia
غزل
آئینہ کردار کا جس نے بھی میلا کرلیا
سانس تو لیتا رہا وہ دل کو مُردہ کرلیا
خود ہی گُل کر بیٹھے اپنی فکر کے روشن چراغ
ہم نے اپنی زندگی میں خود اندھیرا کر لیا
اس جہاں میں لوگ کہتے ہیں اُسی کو کامیاب
جِس نے اپنی ذات کو دُنیا میں رُسوا کر لیا
اُس کے بارے میں بھی کوئی تبصرہ بے سود ہے
زندگی کا ماحصل جس نے بھی پیسا کر لیا
چاند پر چھائی ہوئی تھیں کُچھ معطر بدلیاں
زُلفیں چہرے سے ہٹا کر ہی سویرا کر لیا
رہ کے وابستہ زمین سے بھی ہوئے ہم سرفراز
آسمانوں سے بھی ہم نے ربط پیدا کر لیا
سرفراز احمد فراز دہلوی
Sarfaraz Ahmed Faraz Dehlvi