23/02/2025 18:10

آئی لو یو . ڈیڈی مختصر افسانہ

آئی لو یو . ڈیڈی
.تحریر : سید ایاز مفتی
 
برس ہا برس کی محنت ، عرق ریزی اور رتجگوں کے بعد پرویز نے کاروباری دنیا میں ایک مثالی مقام حاسل کیا تھا . آج سوسائٹی میں مالی لحاظ سے اسکو بڑا محترماور معتبر تصور کیا جاتا تھا . اسکو ایک بزنس آئیکون کی حیثیت ملنے میں بھی کچھ ہی عرصے فاصلہ رہ گیا تھا . اس نے اپنے ماضی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور شہرت کے آسمان پر انفرادی حیثیت کی اڑان اسے خوب بھارہی تھی . وہ ماضی و حال کا تقابل کرنے بیٹھا .تو اسے محسوس ہوا کہ اس نے سالوں کا فاصلہ مہینوں میں طے کیا ہے . اس کی ساری تمنائیں ، خواہشیں ، آرزوئیں ایک ایک کرکےپوری ہوتی جارہی تھیں .معاً اسکے سامنے اسکی ساری خواہشات کی فہرست آگئی . آج جب اس نے ایک مرتبہ پھر ان خواہشات کی فہرست کو دیکھا توا س میں ابھی بھی ایک ایسی خواہش تھی . جو ابھی بھی شرمندہ ء تعبیر نہ ہوئی تھی اور جو بچپن سے اسکا پیچھا کررہی تھی . اور یہ تمنا ایک فلی لوڈڈ لیمبرگینی گاڑی خریدنےکی تمنا تھی . وہ کب سے اسکا دیوانہ تھا . سچ کہو تو اس کا پہلا عشق اسی گاڑی سے تھا .اس کے خواب بھی لیمبر گینی کی سیر سپاٹے سے مزین و آرستہ تھے . اسی گاڑی کے متعلق معلومات حاصل کرتےرہنا ، اسکی تصویروں سے اپنا کمرہ سجائے رکھنا اسکا محبوب مشغلہ تھا . .شادی کے بعد اللہ نے اسے ایک خوبصورت بیٹے علی حسن سے نواز ا تھا . علی ھسن بھی چوتھے سال میں داخل ہوگیا تھا . اور اب تو بہت سے الفاظ لکھنے کے قابل ہوگیا تھا . اس کے لئے پرویز اکثر اسی گاڑی کے خوبصورت ماڈل خرید لاتا . اور اپنے بیٹے کو گفٹ کرتا . نجانے کیوں مگر آج پرویز نے اپنی اس خواہش ِ دیرینہ کو پورا کرنے کی ٹھان ہی لی . بیوی سے بات کی اس نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور یوں دونوں میاں بیوی گاڑیوں کے شوروم گئے اور مختلف لیمبر گینی کی گاڑیاں دیکھیں . کافی دن یہ آنا جانا لگا رہا . اور بالاآخر اس نے اپنی پسندیدہ کلر میجسٹک گرین کی فلی لوڈڈ لیمبر گینی خرید لی .آج اسکے پاؤں زمین پر نہ ٹک رہے تھے . اسے ایسے لگ رہا تھا . کہ جیسے وہ آسمانوں پہ اُڑ رہا ہے اور زمین والے اسے رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.اس گاڑی کی پارکنگ کے لئے اس نے ایک گیراج الگ سے بنوایا اور اسکا دروازہ گاڑی کے ریموٹ سے کھلتا تھا ÷ اور . جس کا اندرونی حصہ اسکے ماسٹر بیڈ روم سے قریب تھا . اپنی خواہش کی تکمیل پر وہ بہت خوش نظر آرہا تھا . اس نے اپنی خوشی میں شریک کرنے کے لئے شہر بھر کے کاروباری طبقے کو ایک پر تکلف دعوت میں بلایا جو اس نے اپنے محل نما گھر پہ تشکیل دی تھی .بالاخر دعوت والا دن آپہنچا . جس کی صبح سے تیاریاں چل رہی تھیں . اسکی بیوی نوکروں کو مخلتف ہدایات دے رہی تھی . اور آج کے اسپیشل ڈشز کی تیاریوں میں جتی ہوئی تھی . شام سے ہی سے مہمان آنا شروع ہوگئے . ہر کسی نے اس کی خریدی ہوئی کار کی تعریف کی . اور اسے مستقبل کا بزنس آئیکون قرار دیا . مہمانوں کے جانے کے بعد گھر کی صفائی شروع ہوگئی . اچانک پرویز کو احساس ہؤا کہ حسن دکھائی نہیں دے رہا . بیوی سےپوچھا اس نے کہا کہ رومز چیک کرو . حسن وہاں بھی نہیں ملا . پرویز نے گاڑی والے کمرے میں چیک کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا بیٹا گاڑی کے ایک حصے سے ایک بچوں کی قینچی سے اسے کھرچ رہا ہے اور کافی حد تک اس نے گاڑی پر اسکریچز ڈال دئیے تھے . پرویز کو یوں لگا کہ جیسے کسی نے اسے آسمانوں سے زمین پر ایک ہی جست میں پھینک دیا ہوں . غصے کے مارےوہ حواس باختہ ہوگیا اور اسی عالم میں اس نے ایک لکڑی کی اسٹک اٹھائی اس بد تہذیبی اور بدتمیزانہ حرکت پر اپنے بیٹے کےبری طرح زود کوب کرنا شروع
کردیا . اس کے ہاتھ تھے کہ بچے کو مارنے سے رک نہ پارہے تھے . . ہربار جب وہ علی حسن کو اسٹک مارتا تو کہتا.کہ تم نے میرے برسوں کے خواب کو ، میری لیمبرگینی کی شکل کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے . سونے کو مٹی کردیا ہے ، کروڑوں کو کوڑیوں کے برابر کردیا ہے . انہی ہاتھوں سے . بچے کے ہاتھوں سے خون نکلتے دیکھ کر اور بچے کی خوفناک چیخیں سن کر ماں بھی ادھر آئی اور اس نے بڑی مشکل سے پرویز کو دھکیلتے ہوئے بچے سے دور کیا اور پھر اس کے ہاتھوں سے اسٹک لیکر پھینکی اور بولی اب کیا اس کے لئے بچے کی جان لوگے . دیکھتے ہو تمہارے غصے سے اسکے نازک جسم کو کیا نقصاں پہنچا ہےاور معصوم بچے کو مزید کیاکیا اندرونی نقصان پہنچ سکتا ہے . اتنا بھی کیا پاگل پن ہے .کیا تمہیں اس کا احساس بھی ہے کہ اس کے ہاتھوں سے مسلسل خون بہہ رہا ہے . اب پرویز پریشان ہوا اور علی حسن کی حالت کو غیر ہوتے دیکھ کر قریبی اسپتال بھاگا . فوری طور پر بچے کو اسپتال داخل کیا تھا . وہاں پر دونوں میاں بیوی نے جھوٹ بولا کہ بچے کو کسی نے مارا اور اسکی چیخیں سن کر ہم باہر نکلے تو اس حالت میں ملا تھا . لیکن وہ کون تھا . اسکے کیا مقاصد تھا . ہمیں معلوم نہیں . بچے کے مختلف اسکینز ، سی ٹی ، ایم آر آئی کئے گئے اور مختلف ٹیسٹس کے بعد ڈاکٹرز نے جو رپورٹ دی . وہ بہت تشویشناک تھی . ڈاکٹرز کے مطابق بچے کے جسم اور ہاتھوں پر بار بار کی ضربات سے اس کی کوئی ایسی کوئی نس متاثر ہوگئی ہے . جس سے بچہ تقریباً پیرا لائز ہوگیا ہے . اور بہت کم چانسز ہیں کہ بچہ اب کبھی ریکور ہوسکے . تاہم خدا تعالیٰ کی ذات سے مایوس نہ ہوں . آج بھی ایسی مثالیں موجود ہیں . جہاں سائنس اور ٹیکنالو جی کچھ نہ کرسکی . مگر بچہ اللہ کی رحمت سے خودبخود صحیح ہوگیا . ڈاکٹر تو ڈھارس بندھا رہے تھے . مگر پرویز کو اپنی ساری دنیا اندھیر ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی
پرویز کو اپنی غلطی کا احساس تو ہوگیا تھا ، مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی . وہ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا . کہ آخر غصے میں آکر اس نے ایسا کیوں کیا .اسے اپنے پاگل پن پہ بھی غصہ آرہا تھا . یہی سوچتا ہؤا وہ گاڑی کے اسی حصے کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا .
جہاں اس کے بچے نے اسکریچز ڈالے تھے. وہ رو رہا تھا . کہ اسنے آخر اتنا غصہ کیوں گیا . معاً اسکی نگاہ اس اسکریچ والی جگہ پر رک گئی . وہ ساکت سا ہوگیا .اور حیرت و استعجاب نے اسکی جگہ لے لی . یہ اسکریچز تو تھے . مگر جیسے کچھ لکھنے کی کوشش کی گئی ہو . او رکوئی شیپ بنانے کی کوشش کی گئی تھی
وہ قریب آکر اسےپڑھنے کی کوشش کرنے لگا . غور کیا تو اس کے بیٹے نے قینچی کی مدد سے دل کی تصویر بناکر اسکے اندر لکھنے کی کوشش کی تھی ۔ لکھا ہوا تھا
. آئی لو یو .. ڈیدی

ابنِ مفتی سید ایاز مفتی

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین