loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

08/06/2025 01:37

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی

آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
جانے کس دہر سے آیا ہے یہ طوفان بلا
یہ جو طوفان کہ اس میں ہیں کھنڈر
خوابوں کے ٹوٹتے خواب ہیں دھندلی سی گزر گاہوں کے
ان کہی کوئی کہانی، کوئی جلتا آنسو
آ کے دامن پہ ٹہرتا ہوا بے کل شکوہ
چپ سی سادھی ہے مرے بت نے ……… مگر آنکھوں میں …..
مرے ہر تاج محل کی ہے حقیقت واضح
جس میں رہتی ہے وہ شہزادی جسے قدرت نے
دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے بدن پتھر کا
میں نے دیکھا ہے کہ وہ رات کے اندھیاروں میں
اپنے خوابوں کے محل خود ہی جلا دیتی ہے
اپنے ٹوٹے ہوے پر خود ہی چھپا دیتی ہے
اپنے اشکوں کے دیے خود ہی بجھا دیتی ہے
خود ہی اپنے لئے لکھتی ہے سزاؤں کی کتاب
اپنے ہاتھوں سے چھپا دیتی ہے زخموں کے گلاب
آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
آج لرزش سی ہے پیروں میں ،تھکن سانسوں میں
کرچیاں چبھنے لگی ہیں جو میری سانسوں میں
آج لازم ہے کہ چپ چاپ گزر جائے شام
کوئی آہٹ ہو نہ دستک ، نہ ہی چھلکے کوئی جام
آج آئینے سے کترا کے گزر جانا ہے
آج شب گھور اندھیرے میں اتر جانا ہے
پھر نیا دن نئی مسکان جگا لائے گا
شب کا طوفان کناروں سے اتر جائے گا
آج لگتا ہے سمندر مے ہے طغیانی سی

شائستہ مفتی

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم